1 December ,2025
8.2 C
Islamabad

کیا نئے یونیفارم سے بنگلہ دیش پولیس کا خراب تاثر بہتر ہو سکے گا؟

بنگلہ دیش کی پولیس نے نئی وردیاں متعارف کرا دی ہیں، جو اصلاحات کا پیغام دینے اور شدید حد تک خراب عوامی اعتماد کو بحال کرنے کی علامتی کوشش ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ گذشتہ سال کی بڑی عوامی بغاوت کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات سے صرف چند ماہ قبل سامنے آیا ہے۔
2024  میں شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد پولیس فورس شدید انتشار کا شکار ہوگئی تھی۔ 2024 کی طلبہ تحریک کے دوران کم از کم 1,400 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی یا معذور ہوئے، جن میں سے بہت سے پولیس فائرنگ کا نشانہ بنے۔
پولیس کے ترجمان شہادت حسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’بنگلہ دیش پولیس ایک بہت بڑے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ پالیسی سازوں نے تجویز دی ہے کہ… نئی وردی مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔‘
اب پولیس اپنی روایتی فیروزی اور نیلی وردیوں کی جگہ آئرن گرے قمیضں اور چاکلیٹ براؤن پتلونیں پہن رہی ہے۔
لیکن آیا نیا رنگ پولیس کی خراب ساکھ کو درست کر پائے گا یا نہیں، اس پر شکوک برقرار ہیں۔
48  سالہ ناظمہ اختر، جن کے 17 سالہ بیٹے گولام نفیز کو بغاوت کے دوران مارا گیا تھا، کہتی ہیں ’جب بھی میں کسی پولیس والے کو دیکھتی ہوں تو میرا دل چاہتا ہے اس کا گوشت نوچ لوں۔ نہیں جانتی کہ میں اپنی یہ نفرت کبھی ختم کر پاؤں گی یا نہیں۔‘
طلبہ تحریک کے دوران ناظمہ اختر کے بیٹے کو گولی ماری گئی تھی اور ہسپتال میں داخلے سے انکار کیا گیا، اور وہ 4 اگست 2024 کو خون زیادہ بہہ جانے سے چل بسا تھا۔
وہ کہتی ہیں ’ایک نئی وردی ان کا رویہ کیسے بدل سکتی ہے؟ میں نے اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے کہ انھوں نے اساتذہ کو صرف تنخواہ بڑھانے کے مطالبے پر مارا۔‘
پولیس کے ترجمان شہادت حسین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش پولیس ایک بہت بڑے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
170  ملین آبادی والے ملک میں فروری 2026 میں انتخابات متوقع ہے، جنہیں پُرامن بنانے میں سکیورٹی فورسز کا کردار نہایت اہم ہوگا۔

مشکلات کا شکار

سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کو پیر کے روز ڈھاکہ کی ایک عدالت نے سزائے موت سنائی، جن پر دیگر الزامات کے ساتھ ساتھ مظاہرین کے خلاف مہلک قوت استعمال کرنے کا حکم دینے کے الزامات بھی شامل تھے۔
شیخ حسینہ واجد نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے فوج کو احتجاج کچلنے کا حکم دیا لیکن فوج نے انکار کر دیا۔
حکام کے مطابق، ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کے انتشار میں ملک کے تقریباً 600 میں سے 450 پولیس سٹیشنوں کو توڑ پھوڑ اور نذرِ آتش کیا گیا۔
شہادت حسین کے مطابق ’پچھلی حکومت کے جاتے ہی پولیس اہلکار فوری طور پر سٹیشن چھوڑ گئے، اور اب وہ دوبارہ سنبھلنے کی کوشش میں ہیں۔‘
تحقیقات میں طلبہ تحریک دوران پولیس کی وسیع پیمانے پر بربریت ریکارڈ پر آیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کے الزامات میں مطلوب 55 سینیئر افسران انڈیا فرار ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ٹک گلوبل انسٹیٹوٹ کی فوزیہ افروز نے اے ایف پی کو بتایا کہ غیر مسلح نوجوان طالب علم عاشق الرحمان ہریدوی کو پولیس کے دو گروہوں کے درمیان پھنسایا گیا اور انتہائی قریب سے گولی ماری گئی۔
تقریباً 1,500 پولیس اہلکاروں پر اب فوجداری مقدمات جن میں اکثر قتل کے الزام میں چل رہے ہیں جن میں سے درجنوں حراست میں ہیں۔ سابق پولیس سربراہ، جس نے شیخ حسینہ کے خلاف مقدمے میں اعترافِ جرم کیا، کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کے الزامات میں مطلوب 55 سینیئر افسران انڈیا فرار ہو چکے ہیں۔
لیکن موجودہ اہلکار اپنی مایوسی بھی ظاہر کرتے ہیں’44 پولیس اہلکار بھی اس بدامنی میں مارے گئے، پھر بھی عبوری حکومت نے مظاہرین کو قانونی چھوٹ دے دی ہے۔‘
سلطانہ رضیہ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے شوہر، پولیس انسپکٹر، کو حسینہ کے فرار کے بعد انتشار میں ہجوم کے ہاتھوں پٹ کر مرتے دیکھا۔ وہ کہتی ہیں ’انہیں اس طرح نہیں مرنا چاہیے تھا۔‘
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے کہا ’پولیس والے بھی انسان ہوتے ہیں۔‘

سیاسی آلہ کار

نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے پولیس اصلاحاتی کمیشن تشکیل دیا ہے، مگر پیش رفت سست ہے۔

60  سالہ موٹر رکشہ ڈرائیور عالمگیر حسین کہتے ہیں’ پولیس کو ہمیشہ حکومتوں نے سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پولیس کی زیادتیوں کے الزامات بدستور برقرار ہیں اور عوامی اعتماد اس قدر گر چکا ہے کہ کئی علاقوں میں ہجوم اب باقاعدگی سے خود ہی انصاف کرتے ہیں، کبھی کبھار مشتبہ افراد کو اغوا کر کے قتل کر دیتے ہیں۔
انسانی حقوق گروپ ’اودھیکار‘ کے مطابق، بغاوت کے بعد کے ایک سال میں تقریباً 300 افراد سیاسی تشدد میں مارے گئے۔
60  سالہ موٹر رکشہ ڈرائیور عالمگیر حسین کہتے ہیں’ پولیس کو ہمیشہ حکومتوں نے سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا۔‘
’انہوں نے کبھی قانون کی پروا نہیں کی۔‘

Related
Related

高市早苗“台湾有事论”引发中国全力反制 国际社会有何反应(2025年11月20日)

中国政府接连出招,试图迫使日本首相高市早苗撤回涉及台湾防务的言论。面对排山倒海的压力,这位被称为“铁娘子”的首相似乎仍未退缩。 继发布停止赴日旅游与留学警告、日本电影在华“被下架”后,据日本共同社报道,东京当局先后接获北京通知,暂停进口日本水产,并停止日本牛肉对华出口磋商。 韩国当局星期四(11月20日)称接获北京通知,原订即将在澳门举行的第16次中日韩文化部长会议延期。中国外交部发言人毛宁表示,高市早苗言论“破坏中日韩三方合作的基础和氛围”,导致开会条件“暂不具备”。 台湾总统赖清德呼吁国际社会关注中国报复日本的相关事态。但除了美国驻日本大使已“开腔调侃”、俄罗斯表达声援外,其他西方国家未见发言。分析人士对 BBC 中文表示,如此沉默或许对高市早苗有利。 自高市早苗 11 月 7 日在国会众议院预算委员会发表“台湾有事”与行使集体自卫权的相关言论以来,中国对日本的批评持续不断。19 日,中国外交部发言人毛宁一连回答了五条相关问题。 毛宁在回答 BBC...

LATEST